Monday, 19 March 2012

یاد ماضی


اکیاون برس ہونے کو آئے ۔۔۔
بیس مئی 1961ءکو امریکا کے نائب صدر لنڈن بی جانسن پاکستان کے دورے پر کراچی پہنچے۔ان کا قافلہ ڈرگ روڈ (موجودہ شارع فیصل) پر ایئر پورٹ سے ایوان صدر کی طرف رواں دواں تھا۔ سڑک کے دونوں طرف ان کا خیر مقدم کرنے والے عوام کا ہجوم تھا۔ جانسن نے تمام سفارتی اور حفاظتی آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے کئی بار راستے میں اپنی گاڑی روکی اور گاڑی سے اتر کر لوگوں سے ہاتھ ملائے اور خوش خلقی سے باتیں کیں۔
ڈرگ روڈ ریلوے سٹیشن کے نزدیک انہیں اچانک ایک اونٹ گاڑی نظر آئی۔ انہوں نے اپنے قافلے کو رکوا کر اس گاڑی کے مالک بشیر احمد سے بے تکلّفانہ گفتگو کی۔ اونٹ گاڑی پر بھوسہ لدا ہوا تھا۔ لنڈن بی جانسن کے استفسار پر بشیر احمد نے انہیں بتایا کہ یہ مویشیوں کا چارہ ہے اور اس کے اونٹ کی عمر پانچ سال ہے۔ بشیر احمد نے جانسن کو یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے اونٹ کو پیار سے غازی کہتا ہے۔ بشیر احمد کی سادگی پر جانسن بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اس سے کہا کہ آج سے ہم دونوں دوست ہیں اور کیا وہ اپنے اس نئے دوست سے ملنے کے لیے امریکا آنا پسند کرے گا۔ بشیر نے جواب دیا کیوں نہیں، کیوں نہیں۔ اس پر سب لوگ ہنس پڑے۔ جانسن نے بشیر کو ایک خوبصورت بال پوائنٹ قلم تحفے کے طور پر دیا۔
چند دن بعد روزنامہ ”جنگ“ کراچی میں معروف کالم نگار ابراہیم جلیس نے اپنے کالم ”وغیرہ وغیرہ“ میں اس واقعہ کا ذکر کیا اور لنڈن بی جانسن کے اس اقدام کی بڑی تعریف کی۔ ادھر امریکی سفارت خانے نے اس کالم کا ترجمہ لنڈن بی جانسن کو، جو امریکا پہنچ چکے تھے، روانہ کردیا۔ یہ کالم پڑھ کر لنڈن بی جانسن کو کراچی کا اونٹ گاڑی بان اور اس کو دی گئی دعوت یاد آگئی۔
لنڈن بی جانسن نے فوری طور پر بشیر احمد کو سرکاری طور پر امریکا آنے کی دعوت بھجوا دی۔ ذرائع ابلاغ سے جب یہ خبر عام ہوئی تو ”ریڈرز ڈائجسٹ“ نے بشیر کا میزبان بننے کی پیشکش کردی اور یوں پاسپورٹ اور ویزے کے مراحل سے گزرنے کے بعد 14اکتوبر 1961ءکو بشیر احمد امریکا کے سفر پر روانہ ہوگیا۔سفر پر روانگی سے قبل حکومت پاکستان نے بشیر احمد کے ملبوسات پر خصوصی توجہ دی اور اسے تین شیروانیاں اور ایک جناح کیپ تحفے میں پیش کی تاکہ وہ امریکا پہنچ کرایک باوقار پاکستانی کی طرح نظر آئے۔ حکومت نے لنڈن بی جانسن کو پیش کرنے کے لیے کچھ تحائف بھی اس کے ہمراہ کر دیے۔
بشیر اونٹ گاڑی بان، جسے اب بشیر ساربان کہا جانے لگا تھا، لندن سے ہوتا ہوا امریکا پہنچا۔ لندن اور نیویارک، دونوں مقامات پر بشیر ساربان کو سرکاری مہمان کا پروٹوکول دیا گیا۔ اس کا یہ دورہ قریباً دو ہفتے جاری رہا۔ امریکا کے نائب صدر جانسن نے اس سے اپنی ملاقات کی تجدید کی۔ نیویارک میں اسے ورلڈ روف سٹوریا ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اور اسے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز اور ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی سیر کروائی گئی۔ اس کی ملاقات امریکا کے ایک سابق صدر ہیری ایس ٹرومین سے بھی کروائی گئی جو بشیر احمد سے مل کر بہت خوش ہوئے۔
امریکی ذرائع ابلاغ کو جب بشیر ساربان کی امریکا آمد کی خبر ملی تھی تو وہ اسے ایک دلچسپ واقعہ سمجھے تھے اور انہوں نے اپنے مزاح نگار کالم نگاروں کو بشیر ساربان کے دورے کی کوریج کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ مگر اس دورے کے دوران بشیر ساربان نے ،جو بالکل بھی پڑھا لکھا نہیں تھا، اپنی ذہانت سے بھرپور باتوں سے امریکی ذرائع ابلاغ کو بڑا متاثر کیا۔ مثلاً اس سے پوچھا گیا کہ اسے امریکا کا سرد موسم کیسا لگا ہے تو اس نے جواب دیا امریکیوں کی گرم جوشی سے مجھے اس موسم کی ٹھنڈک کا احساس جاتا رہا ہے۔ اس نے اپنی ایک بیٹی کے بارے میں بھی کہاکہ بیٹی کی مثال گھر میں اسی طرح ہوتی ہے جیسے موسموں میں بہار کا موسم ہوتا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ اونٹ کیسا جانور ہے تو اس نے ہنستے ہوئے کہاکہ اونٹ کی مثال عورت کی طرح ہے جس کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ اس کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ بشیر احمد کوامریکا کے مختلف اداروں نے بہت سے تحفے تحائف دیے جن میں ایک ٹرک بھی شامل تھا۔ لنڈن بی جانسن نے بشیر ساربان کے بیٹے کے لیے ایک سپورٹس سائیکل بھی بطور تحفہ پیش کی۔ لنڈن بی جانسن نے سفر کے اختتام پر بشیر ساربان کو عمرے کے لیے سعودی عرب بھیجنے کی پیشکش کی ۔ بشیر ساربان لنڈن بی جانسن کی اس عنایت پر اشکبار ہوگیا۔
چند ماہ بعدمارچ 1962ءمیں صدر امریکا کی اہلیہ مسز جیکولین کینیڈی اور ان کی بہن رازیوال نے پاکستان کا خیر سگالی دورہ کیا۔ ان کا یہ دورہ21 مارچ 1962ءکو لاہور سے شروع ہوا جہاں ان کا پرجوش استقبال کیا گیا۔ دورے کے آخری مرحلے میں 25مارچ 1962ءکو وہ کراچی پہنچیں۔ اسی روز انہوں نے کراچی کے ایوان صدر میں امریکا کے نائب صدر لنڈن بی جانسن کے دوست بشیر ساربان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر بشیر ساربان نے اپنے بیوی اور بچوں سے مسز کینیڈی کا تعارف کروایا اور انہیں اپنے اونٹ ”غازی“ پر سیر کی دعوت دی۔ مسز کینیڈی نے یہ دعوت بڑی خوش دلی سے قبول کی اور اپنی بہن کے ساتھ ایوان صدر کے لان میں پانچ منٹ تک بشیر کے اونٹ کی سواری کی۔ مسز کینیڈی اس سواری سے بہت خوش ہوئیں اور انہوں نے اس اونٹ کے ساتھ کئی تصویریں بھی بنوائیں۔
.... 1971 ع میں جب ضیا محی الدین نے پاکستان ٹیلی وژن سے اپنا مشہور شو شروع کیا تو انہوں نے اس پروگرام میں بشیر ساربان کو بھی مدعو کیا۔ انہوں نے بشیر ساربان سے پوچھا کہ اس نے پاکستان واپس آکر اونٹ گاڑی چلانا کیوں چھوڑ دیا ہے تو بشیر ساربان نے بے ساختہ جواب دیا کہ مجھ سے جانسن نے کہا تھا کہ پاکستان واپس جاکر میری پوزیشن کا خیال رکھنا۔
1963ءمیں جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعدلنڈن بی جانسن امریکا کے صدر بن گئے اور اس عہدے پر وہ1968ءتک فائز رہے۔22 جنوری 1973ءکو جب لنڈن بی جانسن کا انتقال ہوا تو میڈیا کو بشیر ساربان ایک مرتبہ پھر یاد آیا۔ وہ کراچی میں امریکی قونصل خانے میں مدعو کیا گیا جہاں اس نے لنڈن بی جانسن کے انتقال پر رکھی گئی تعزیتی کتاب میں اپنے تاثرات رقم کیے ۔
اس کے بعد بشیر ساربان ایک مرتبہ پھر غربت اور گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوگیا اور 14 اگست1992ءکو جب اس کا انتقال ہوا تو بہت سے لوگوں کو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ اس گمنام شخص کی خبریں اور تصاویر کبھی دنیا بھر کے اخبارات میں صفحہ اوّل کی زینت بنی تھیں۔